۱۶ آبان ۱۴۰۳ |۴ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 6, 2024
مولانا ممتاز علی مرحوم

حوزہ/ ہندوستان کے معروف عالم دین اور خطیب مولانا ممتاز علی کی رحلت پر مولانا سید غافر رضوی نے گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے لواحقین سے تعزیت کا اظہار کیا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،ہندوستان کے معروف عالم دین اور خطیب مولانا ممتاز علی کی رحلت پر مولانا سید غافر رضوی نے گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے لواحقین سے تعزیت کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ زمانہ کے نشیب و فراز روز بروز اہل عالم بالخصوص عالم تشیع کے لئے درس عبرت بن رہے ہیں؛ جہان اسلام کے مضبوط ارکان منہدم ہو رہے ہیں؛ اگر شہادت جیسی سعادت نہ ہوتی تو ان ہستیوں کی جدائی برداشت کرنا ایک امر محال ہوتا؛ اسی پر آشوب دور میں علمائے دہلی کے درمیان ایک حیثیت کے حامل، امامیہ ہال کے امام جمعہ حجت الاسلام مولانا الحاج شیخ ممتاز علی قبلہ بھی داغِ مفارقت دے گئے۔

انہوں نے مزید کہا کہ مولانا موصوف نہایت سادہ مزاج، سنجیدہ طبیعت، خوش اخلاق، دائرہ ادب میں شوخ طبیعت کے حامل، عالم باعمل، شاعر بے بدل، تجزیہ نگار، تنقید کار، مبلغ شریعت اور نہ جانے کون کون سی صفات حسنہ کے مالک تھے۔

مولانا سید غافر رضوی نے کہا کہ مرحوم و مغفور سے ہماری اکثر ملاقات رہا کرتی تھی، کیونکہ وہ ہمارے استاد محترم حجت الاسلام مولانا سید شمشاد احمد رضوی صاحب قبلہ (امام جمعہ سابق چھولس سادات) کے صمیمی دوست تھے جو جوادیہ عربی کالج سے لیکر حوزہ علمیہ قم المقدسہ ایران تک ساتھ رہے؛ آخر کے دو برسوں میں تقریباً ہفتہ میں ایک روز تو ضرور موصوف سے ہماری ملاقات ہو جاتی تھی۔

اک دِیا اور بجھا اور بڑھی تاریکی، مولانا سید غافر رضوی

انہوں نے مزید کہا کہ مولانا ممتاز صاحب اپنی آپ بیتی سنایا کرتے تھے تو ایسا محسوس ہوتا تھا گویا ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں یعنی بالکل بھی ایسا محسوس نہیں ہوتا تھا کہ وہ ماضی کی یادوں کے بیان میں مصروف ہیں، یہ بھی موصوف کا ایک ہنر تھا۔حالات حاضرہ کے تبصرہ میں کافی حد تک عبور حاصل تھا۔ طلاب کرام کی بابت خاص احترام کے قائل تھے۔ وعظ و نصیحت کے عناصر بھی موصوف کے وجود میں موجود تھے۔

اک دِیا اور بجھا اور بڑھی تاریکی، مولانا سید غافر رضوی

انہوں نے مولانا ممتاز کی رحلت پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے مزید کہا کہ ایسے اوصاف کے حامل انسان کے بارے میں 5 نومبر سن 2024ء کی رات تقریباً سوا بارہ بجے یک بیک علمائے اعلام کے گروہ میں یہ خبر نشر ہوئی کہ مولانا ممتاز علی صاحب نے دار فنا سے دار بقا کی جانب کوچ کیا؛ بالکل یقین نہیں ہو رہا تھا لیکن زمانہ کے نشیب و فراز نے یقین دلایا کہ حرکت قلب بند ہو جانے اور اس کے ساتھ برین ہیمرج کے عارضہ نے موصوف کو راہی دار بقا بنا دیا "انا للہ و انا الیہ راجعون"۔ یہ غم اہل خانہ کے لئے نہایت دشوار ہے لیکن کربلا والوں کی سیرت نے سارے غموں کو سہنا سکھا دیا ہے؛ اطلاعات کے مطابق مولانا کی تشییع جنازہ 6 نومبر سن 2024ء بروز چہار شنبہ بعد از ظہر، امامیہ ہال سے دہلی گیٹ کی جانب ہوگی اور نماز جنازہ کے بعد دہلی گیٹ قبرستان میں سپرد لحد کیا جائے گا۔ جانے والے! تجھے روئے گا زمانہ برسوں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .